پریم چند گھر میں

منشی پریم چند اردو افسانے کا پہلا سب سے بڑا نام ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کو سادہ اور دیہاتی ماحول کی کہانیوں سے مالامال کیا۔ یہ وہی ہیں جنھوں نے مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی المیے پر ڈراما ’’کربلا‘‘ لکھا لیکن بعض وجوہ کی بنا پر وہ پس منظر میں رہا۔ وہ ایک بہت بڑے انسان اور ایک بڑے لکھنے والے تھے۔ شِو رانی ۱۹۲۴ء سے ایک لکھنے والی کے طور پر ہندی ادب میں ابھریں۔ انھوں نے کہانیاں لکھیں اور جب پریم چند رخصت ہوئے توان کی زندگی کے ان نامعلوم گوشوں سے پردہ اٹھایا جس سے ہم واقف نہ ہوتے اور ہمارے ایک بڑے ادیب کی زندگی کے ابواب نامکمل رہتے۔

ٹوکری میں شامل کریں

شِو رانی دیوی

مزید دیکھیں

تعارف

قائم شدہ ۱۹۰۳ء

مجلسِ نظما

ممتاز اہلِ علم کی مجلس

دارالمطالعہ

ایک لاکھ سے زائد کتابیں

مخطوطات

تقریباً ڈھائی ہزار مخطوطات

“قائداعظم محمد علی جناح”

میں یہ واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہی ہوگی۔ کوئی دوسری زبان نہیں۔ ہر وہ شخص جو اس بات میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، یقیناً پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو مربوط رہ سکتی ہے اور نہ اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دے سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ پر نظر ڈال لیجیے۔ آپ کو خود ہی معلوم ہوجائے گا جہاں تک سرکاری زبان کا تعلق ہے، پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔

(دورۂ ڈھاکا کے دوران تقریر، ۲۲ مارچ ۱۹۴۸ء)
urdu-aur-jadded-urdu-Tanqeed

ڈاکٹر وزیر آغا

تنقید اور جدید اردو تنقید

صفحات: ۲۱۶
قیمت: ۵۰۰ روپے
ڈاکٹر وزیر آغا ایک مدّت سے اردو تنقید میں ایک مکتب کہلانے لگے ہیں۔ ان کا منفرد اندازِفکر و نظر اور موقف… اس خطبے میں بھی جھلکتا ہے جو بنیادی طور پر ایک تحقیقی جائزہ ہے۔ اس سے پہلے اس موضوع اور متعلقہ موضوعات پر چند کاوشیں اردو دانوں کے سامنے آچکی ہیں اب کے ڈاکٹر وزیرآغا کا زیرِنظر خطبہ شائع ہوتا ہے اردو تنقید پر کام کرنے والے اس سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں، لیکن جدّت، جدیدیت… اور خود تنقید… کیا ہے۔ اب یہ عنوان بجائے خود بڑے مباحث بن چکے ہیں۔

اردو ادب کی تحریکیں

ڈاکٹر انور سدید

صفحات: ۶۰۰

قیمت: ۱۰۰۰ روپے

لفظ تحریک، بجائے خود اس امر کی علامت ہے کہ اگر کسی معاشرے میں فکری جمود پیدا ہو رہا ہو تو اسے توڑا جائے اور ذہنوں کو نئے زاویوں کی جانب مائل کیا جائے۔ عالمی سطح پر مذہب، سیاست ، علم و فن اور ادب کی دنیامیں ایسی تحریکیںرونما ہوتی رہی ہیں۔ اردو زبان و ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ملک کی کئی جامعات میں عالمی ادبی تحریکوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اثرانداز ہونے والی تحریکوں کو بھی شامل نصاب کرلیاگیا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید نے اس صورت حال کو محسوس کیا اور ان آوازوں کی طرف بھی متوجہ ہوئے جو وقفے وقفے سے بلند ہوتی رہیں کہ اردو ادب جمود کا شکار ہے۔ یہی ردعمل انھوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کے ذریعے اس طرح پیش کیا کہ تحریکوں کی اہمیت اجاگر ہوگئی۔ انھوں نے تحریکوں اور ان کے عوامل پر روشنی ڈالنے کے علاوہ ان تمام ادبی، عمرانی، مذہبی تحریکوں کا بھی مفصل تذکرہ کیا ہے جو عالمی سطح پر ظہور پذیر ہوئیں اور جن کا اردو ادب پر گہرا اثر مرتب ہوا۔

urdu-adab-ki-tehreeken
اشاعتی پالیسی براے کتب
صفحہ زیرِ ترتیب ہے